Abu Qi Qi is sitting in Urdu Short Stories by Mirza Hafiz Baig books and stories PDF | ابّو جی کی آرام کرسی

Featured Books
Categories
Share

ابّو جی کی آرام کرسی

ابّو جی کی آرام کرسی

افسانہ نگار- مرزا حفیظ بیگ.

گھر کے سامنے سے گزرتے ہویے اسنے ایک مرتبہ اس طرف دیکھا اور مجھے اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ، جھینپ کر سر جھکا لیا۔

"شرما گئ میں بیساختہ، حولے سے مسکرا دیا۔

یکایک میں سہم گیا۔ لگا جیسے ابّو نے میری حرکت دیکھ لی ہے۔ صحن میں پڑی آرام کرسی پر بیٹھے، سرخ آنکھوں سے مجھے گھور رہے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے؛ مجھے لگتا ہے کہ وے یہیں ہیں۔ پتا نہیں کیوں میرا پیچھا نہیں چھوڑتے؟……. اپنے انتقال کے اتنے برس بعد بھی۔ سب اس آرام کرسی کی وجہ سے ہے۔ مجھے ہمیشہ سے اس چیز سے نفرت رہی ہے؛ اور انہیں محبّت۔ پتا نہیں یہ بزرگ ایسے کیوں ہوتے ہیں؟ ایسے......؟ مطلب عجیب۔ ہاں یہ بزرگ لوگ عجیب ہوتے ہیں۔

مجھے ہمیشہ ہی ان بزرگ ٹائپ کے لوگوں سے کوفت ہوتی رہی ہے۔ یوں سُست پڑے رہنا۔ اونگھتے حوئے دن گزارنا اور جاگتے ہوئے راتیں۔ پھر اوپر سے شقوے بھی کہ نیند نہیں آتی۔ ابّو جی نے بھی اپنے رٹایرمنٹ کے بعد یہی رنگ ڈھنگ اختیار کر رکھا تھا۔ کہیں سے ایک منحوس آرام کرسی اٹھا لائے اور اسے صحن میں ڈال کر سارا سارا دن پڑے رہتے۔ کوئی آتا جاتا تو مجھے بڑا برا لگتا۔ اس پر بھی، یار دوست آجاتے تو اور خراب لگتا۔ اس وجہ سے بھی مجھے آرام کرسی سے نفرت ہو گئی۔ باز مرتبہ سمجھایا بھی، "یہ کیا بوڑھوں کی طرح......."

بات کاٹ کر بولے، "بوڑھا ہوں تو بوڑھوں کی طرح ہی رہونگا نہ؟ تم کیا چاہتے ہو؟ سینگ کٹاکر بچھڑوں میں شامل ہو جاوں؟ بال کالے کرواکے یہاں وہاں آوارہ پھروں؟....."

میں انھیں اپنی بات سمجھا نہیں سکتا۔ سمجھاتا بھی کیسے؟ یہ کہتا،کہ مجھے بڑھاپا پسند نہیں؟ یا یہ کی مجھے بوڑھے لوگ ہی پسند نہیں؟ دونو ہی صورت میں کم تماشہ نہ ہوتا۔ یہ بوڑھے لوگ تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔ ایک تو ہر بات میں اپنی ہی چلاتے ہیں؛ پھر اپنے تجربات کا پٹارا کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم تو ایسے، ہم تو ویسے۔ ارے! کوئی سمجھائے یار انھیں کہ انکی ان نصیحتوں کی ضرورت کسے ہے۔ تمہارا دوءر گزر گیا اور یہ ہمارا دور کچھ اور ہی ہے۔ لیکن نہیں، اتنا وقت زمیں پر بوجھ بنے رہنے کے بعد تو انھے جیسے لائسنس ہی مل گیا ہے، نصیحتیں جھاڑنے کا۔ کبھی پوچھو کہ آپ کو کیسے اچّھا لگتا ہے یوں آرام کرسی پر پڑے رہنا، تو شیخی بگھارتے ہیں کہ، "میاں! اپنا ریٹائرمنٹ کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ زندگی میں بڑے پاپڑ بےلے ہیں، تب یہ مقام پایا ہے۔ یوں ہی تو یہ آرام کرسی نصیب نہیں ہوئی ہے۔"

اب ان باتوں کا بھلا کیا جواب ہو سکتا ہے۔

خیر! جھیلنا تو پڑیگا ہی؛ گھر جو انکا ہے۔ اور انہیں اس پر تقبّر بھی بڑا ہے۔ گور پھرمایں ، مَیں نے لفظ 'تقبّر' استمال کیا ہے، ناز نہیں۔ پھر، مَیں تو گھر کا سب سے چھوٹا فرد ٹھہرا۔ اب اس بارے میں کیا کہوں …..۔ سب سے چھوٹا، یعنی سب کی سننا۔ مجھ سے بڑے دو بھائی اور ایک بہن ہیں۔ اور یقین مانیں، مجھ پر رعاب جھاڑنا جیسے سب کا فرض رہا ہے۔ اب تو سب کی شادیاں ہو چکی؛ گھر بس چکے ہیں۔ سب الگ الگ شہروں میں سیٹلڈ ہیں۔ ایک مَیں ہی رہ گیا یہاں۔ نہ، نہ، ایسا نہیں کہ میں نکارا ہوں۔ اچّھی خاصی جاب ہے، اچّھی خاصی سیلری۔ سبھی پیچھے پڑے رہے، شادی کر لے، شادی کر لے۔ انہیں کیا؟ کسی کو کھاتا کماتا دیکھے نہیں، کہ ڈال دو گلے میں طوق۔ کسی کی خوشیاں تو دیکھی نہیں جاتی۔ لیکن میں کہاں انکی باتوں میں فسنے والا.....؟

"ایسا تھوڑی ہوتا ہے،" مَیں نے بھی صاف انکار کر دیا،"کما رہا ہوں تو کچھ دن انجواے کر لوں۔ یہ کیا، ابھی سے جنجال پال لو۔"

"جنجال؟ کیا شادی جنجال ہے؟" امّی بگڑ کر کہتی،"شادی تجھے جنجال لگتی ہے؟"

"اور کیا؟"

"تو ہمنے کیا جنجال پال رکھا ہے؟"

"آپ کی بات اور ہے۔ جنجال تو ہم مردوں کے لئے ہے۔"

امّی شاید میری بات کا مطلب سمجھ گئی۔ رونے لگیں۔ مجھے ان باتوں سے فرک نہیں پڑتا۔ جو سچ ہے بول دیا، اب کسی کو برا لگتا ہے، تو مَیں کیا کروں؟ سچ کو تو بدل نہیں سکتا نہ؟ اس پر دونو بھائی مجھے غسّے سے گھورنے لگے اور بھابھیاں نفرت سے۔

"ابھی میری عمر ہی کیا ہے؟...." میَیں نے اپنی طرف سے بات سمھلنے کی کوشش کی۔

"تو کس عمر میں کریگا؟" بڑے بھائی صاحب نے پوچھا۔

"کر لونگا جب دل چاہیگا۔"

"ابے تیری عمر میں ہم، دو بچّوں کے باپ تھے۔" ابّو نے کہا۔

"بڑا تیر مار لئے ...." میں بس فصفسایا؛ لیکن چھوٹے بھائی صاحب نے سن لیا۔ اور اسکے بعد جو میری گت بنی ہے، میں بھول نہیں سکتا۔

اب تو یہ سب گزرے وقت کی باتیں ہیں۔ اب یھاں کون ہے، پوچھنے والا۔ سب اپنی اپنی زندگی میں مست ہیں۔ ابّو گزر گئے، امّی گزر گیں۔ بھائی بہن چند روز شادی کے لئے اسرار کرتے رہے پھر مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ مکان کی کسے ضرورت تھی؟ سب الگ الگ شہروں میں آباد تھے۔ سبکے پاس اپنے اپنے مکانات تھے سو اس مکان کی زمّیداری مجھ پر لاد کر سب فارغ ہو گئے۔ ہاں، چند شرایط ضرور عاید کی گئی؛ جیسے کہ امّی ابّو کی چیزیں ہٹائی نہ جائے اور جب بھی وے لوگ یہاں تشریف لایں تو امّی ابّو کی یادوں سے گھر آباد ملے، وغیرہ وغیرہ۔ شاید میرے وجود کا امّی ابّو سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اور یہی ایک وجہ ہے اس آرام کرسی کو یہاں برداشت کرنے کی۔ ورنہ اسے اٹھا کر کوڑےدان میں نہ فیکتا تو کم از کم پرانے اسباب کے ساتھ اسٹور میں ضرور ڈال دیتا۔

لوگ سوچتے ہیں، میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ لیکن مجھے کبھی اکیلاپن محسوس ہی نہیں ھوا۔ الٹا میں ہی ترس کر رہ گیا ہوں، اپنی پرائیویسی کے لئے۔ امّی تو خیر......؛ لیکن ابّو؟ وے تو اب بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتے.....۔ مر کر بھی نہیں۔ مسلً ابھی آپ نے دیکھا نہ، میں نے ذرا اس لڑکی کی طرف کیا دیکھا، کیسے مجھے گھور کر دیکھنے لگے۔ انکی انہیں باتوں سے بارہا ڈر جاتا ہوں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے، اب کوئی کچھ بھی کہے شادی تو مجھے کرنی ہی ہے؛ اور وہ بھی اسی لڑکی کے ساتھ۔

آپ نے دیکھا ہے نہ اسے۔ ابھی ابھی جو یہاں سے گزری۔ علاقے میں نئی آئی ہے۔ آلا خاندان کی اکلوتی لڑکی ہے۔ وہ اکثر اپنی ایک آنٹی کے ساتھ نظر آتی ہے۔ جب بھی مجھے دیکھتی ہے، اپنی آنٹی کو میری جانب اشارہ کر کے کچھ کہتی ہے، اور پھر دونو کچھ خسر فسر کرتے ہیں۔ کیا باتیں ہوتی ہیں مجھے اندازہ نہیں؛ لیکن موضو میں ہی ہوں یہ سمجھنا کوئی مشکل بات بھی نہیں۔ ان سے میرا سامنا اکثر پارک میں یا راستے میں ہوا ہے۔ لیکن بات چیت نہیں ہو سکی۔ مجھے جھجھک بھی کافی ہوتی ہے۔ لڑکی ابھی کلیج میں ہے۔ کسی میڈیکل کلیج میں۔ کونسا سال چل رہا ہے، پتا نہیں؛ پھر بھی ٹھیک ہے، شادی کی عمر تو ہے ہی اسکی۔ لیکن اس سے تنہائی میں ملنے کی ہمّت بھی نہیں مجھ میں۔ اس علاقے میں کون ہے جو مجھ سے یا میرے خاندان سے ناآشنا ہو؟ ابّو کا نام تو اب بھی یہاں بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ یھاں کے سب سے پرانے باشندے جو ٹھہرے۔ بھائیوں کو بھی بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک میں ہی ہوں، جسے لوگ ذرا سا پاگل یا سنکی سمجھتے ہیں۔ میں نے شادی جو نہیں کی اب تک۔ خیر! اب تو لوگ مجھے بھی عزت سے دیکھنے لگینگے۔ شادی جو کر رہا ہوں۔ بس ایک بار بات ہو جائے اس سے۔ ویسے تو اس کا نام بھی معلوم نہیں مجھے۔ لیکن علیم صاحب کی دختر ے واحد ہے؛ یہی کیا کم ہے؟

لیکن اسے ملوں کس طرح؟ بات کیسے کروں؟ حالانکہ اس بات میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے؛ پھر بھی ساری باتیں کلئیر ہو جایں تو بہتر ہے۔ کوئی بات نہیں اسکا بھی راستہ ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی آنٹی کے ساتھ چپکی رہتی ہے۔ میں نے ایک روز مَوقع مناسب جان کر اسکی آنٹی کو ہی اکیلے میں روک لیا۔ لیکن وہ گھبرا گئی۔

"الله کے واسطے......" وہ گھبرا کر بولی، "آپ اس ترہ راستے میں بات نہ کریں۔ بھائی جان کو پتا چلا تو ناراض ہونگے۔ آپ ساری باتیں گھر آکر بھائی جان سے کریں۔ اس معاملے میں جو کچھ کرنا ہے وے ہی کرینگے۔ میں کچھ نہیں کر سکتی۔"

"علیم صاحب ناراض تو نہ ہونگے؟" میں نے ڈرتے ہویے پوچھا۔

نہیں، ہم نے ان سے سب بتا دیا ہے۔"

"اور وے رازی ہیں؟"

"جی۔" آنٹی نے اتنا ہی کہا اور تیز قدمو سے گھر کی جانب روانہ ہو گئیں۔

میرے لئے اتنا ہی کافی تھا۔

"ٹھیک ہے، میں کل جمع سے قبل آؤنگا۔" میں نے پیچھے سے چیختے ہوے کہا۔ مجھے یہ تک خیال نہیں رہا کہ لوگ سنیگے تو کیا کہینگے۔

مجھے تو بن مانگی مراد مل گئی۔ میری تو لاٹری نکل گئی۔

"وے راضی ہو گئے؟"

"جی۔"

یہ دو الفاظ رہ رہ کر میرے کانو میں گونجتے رہے۔ مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ مجھے یہ کیا ہوتا جا رہا ہے؟ مجھے یقین کیوں نہیں آتا؟ کوئی مجھے یقین کا درس دے۔ یقین کا پاٹھ پڑھاہے۔ مجھے یہ کیا ہو رہا ہے؟

مجھے اس رات نیند نہیں آنی تھی؛ نہیں آئ۔ یقینن نہیں آئ۔

دوسرے دن جمع تھا۔ مبارک دن۔ جمع کا غسل کیا۔ نیَے کپڑے پہنے۔ عطر لگایا۔ بڑے عتماد کے ساتھ اپنے ہونے والے سسرال جا پہنچا۔ وے 79 میں رہتے تھے، جو میرے مکان، پلاٹ نمبر 63 سے دور نہیں تھا۔ اس لئے گاڑی وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی؛ سو پیدل ہی چل پڑا۔ گیٹ پر پہنچ کر گھنٹی بجائی۔ امید کے خلاف، اس لڑکی نے آکر گیٹ کھولا۔ اسنے ہستے ہویے میرا استقبال کیا، "اسسلاموالیکم! آئیے نہ، سب آپکا ہی انتظار کر رہے ہیں۔" کمال ہے بھائی،بڑے کھلے ذہن والے لوگ ہیں۔

لیکن، یہ....۔ سب یعنی کون کون.......؟

لیکن مَیں نے پوچھا کچھ اور ، "آپ کا اسم ے شریف؟"

"جی۔۔۔ عالیہ۔ ڈاکٹر عالیہ علیم۔ MBBS فائنل ہے اس سال۔ اور آنٹی کا نام شازیہ ہے۔ ہم دونو کافی کلوز ہیں۔"

لیکن یار! یہ آنٹی کو کیوں بیچ میں لا رہی ہے؟ کلوز ہے، ٹھک ہے؛ لیکن ہر جگہ آنٹی؟ یہ نہیں چلیگا۔

"آپ آنٹی کے بگیر کوئی کام نہیں کرتیں؟" مَیں نے طنز کرنے کی گرز سے کہا۔ لیکن وہ تو کچھ سمجھتی نہیں۔ وہ اور جوشی سے بتانے لگی، "کوئی کام نہیں...... شازیہ آنٹی اس مائی بیسٹ فرینڈ۔ اور ہم دونو ایک دوسرے کے پکّے رازدار ہیں۔ آپ کو سمھل کر رہنا پڑیگا۔"

ہاں! یہ تو دکھ رہا ہے۔ لیکن یہ بولتی کتنا ہے؟ اسکا منہ نہیں دکھتا؟ میرے تو سر میں درد کر دیگی۔ ایسا نہیں چلےگا۔

اندر بیٹھک میں تو اچّھی خاصی رونک کر رکھی تھی، علیم صاحب نے۔ انکے جسٹ پڑوسی 80 نمبر والے علوی صاحب اور میرے گھر کے ٹھیک سامنے والے راشد صاحب پہلے سے موجود تھے۔ میں اس صورت ے حال کا سامنا کرنے کتئی تیّار نہ تھا۔ میں ذرا سکپکا گیا۔

"جنید میاں، کیا ہی بہتر ہوتا اگر آپ اپنے بڑے بھائیوں کو بلا لیتے۔ ان معاملات میں بزرگان کی موجودگی بہتر ہوتی ہے۔ پھر آپ تو ماشااللہ، خاندانی ہیں۔ ہم خود گواہ ہیں....." علوی صاحب نے بات شروع کی۔

"جی۔۔۔، مجھے تو اپنے خاندان کے افراد کو مدعو کرنا ہی ہے....." مَیں گھبراہٹ میں جو سمجھ میں آیا بولنے لگا۔ در اصل مَیں اس سوال کے لئے تیّار ہی نہیں تھا۔ پھر بھی جو بولا خوب بولا، "بلکی مَیں تو اسی بات کی اجازت مانگنے آیا تھا۔"

علیم صاحب بڑے خوش نظر آئے؛ ظاہر ہے، میرے جواب سے متصّر ہوکر۔ " ارے بھئ اسامیں اجازت کی کیا بات ہے؟" وے ایکدم چہک کر بولے، "بھئ، جب میاں بیوی راضی، تو کیا کریگا قاضی۔ اور جب سے ہم یہاں رہنے اَے ہیں،ہر کسی نے اس رشتے کی نسبت سے آپکے نام کی تذویز کی ہے۔ بلکی علوی صاحب اور راشد صاحب تو خود اس سلسلے میں آپ سے ملانے والے تھے۔ اسی درمیان جب آپ دونو نے ہی ایک دوسرے کو پسند کر لیا تو کوی مثلا ہی نہیں رہا۔"

مجھے تو پتا ہی نہ تھا، کہ میرے پاس پڑوس کے لوگ میرے اتنے خیرخواہ ہیں۔ اور مجھے یکیں ہی نہیں کہ میری تقدیر مجھ پر اتنی مہربان ہے۔

"جی۔ پھر ٹھیک ہے، میں اگلے ہفتے ہی اپنے خاندان والو کو بلا لیتا ہوں۔" کہتے ہوے میں اٹھنے لگا۔ در حقیقت، میں تو علوی صاحب اور راشد صاحب سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا۔

"ارے بھائی، آپ بیٹھیں تو،" علیم صاحب نے ہاتھ پکڑ کر زبردستی بیٹھاتے ہویے کہا، "اب اسے اپنا ہی گھر سمجھئے......"

"ارے، بیٹھئے بھی جنید میاں۔ اب شرمائے مت، یہ آپکا ہی گھر ہے۔ بھائی، ہم تو بس مہمان ہیں۔" یہ راشد صاحب تھے۔ میں کچھ کہتا اسسے پہلے ہی عالیہ آ گیئی۔

"بیٹھئے نہ انکل، شازیہ آنٹی آ رہی ہے۔" اسنے شرارت بھرے انداز میں کہا۔ لیکن اسکے الفاظ میرے کانو میں جیسے پگھلتا ہوا سیسہ بنکر اتر گئے، "بیٹھئے نہ انکل......"

انکل....... انکل ......انکل.....

یہ بار بار میرے سر پر ہتھوڑے کی طرح پڑنے لگے۔ معاملہ سمجھتے مجھے دےر نہیں لگی۔ یہ تو دھوکا ہے۔ لیکن دھوکا کیا.....؟ میرے زہن نے کام کرنا بند کر دیا۔ مَیں بس نوَ دو گیارہ ہونا چاہتا تھا۔

علیم صاحب بولے جا رہے تھے، "ارے، ایسا بھی کیا تکلّف جنید میاں! آپ اور ہم تو ہم عمر ہیں۔ بلکی آپ مجھسے ایک-دو برس بڑے ہی ہونگے۔ ویسے، میری بہن مجھسے کافی چھوٹی ہے۔ بلکی یہ کہیں کے اگر سہی وقت پر آپ کی شادی ہو جاتی تو آج عالیہ جتنی بڑی آپکی بھی بیٹی ہوتی؛ تو بھی گلت نہیں ہوگا۔ عمر کا فاصلہ ذرہ زیادہ تو ہے لیکن جب آپ دونو کو یہ رشتہ منظور ہے تو چلیں بسمالّا....."

آگے میرے کان سنن ہونے لگے۔ وے آگے بھی کچھ بولے جا رہے تھے، لیکن میرے کانو نے سننے سے انکار کر دیا، "بیوا ہے، لیکن اولاد نہیں ہے....."

میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔ اور اب تو آنکھیں بھی جواب دینے لگی۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ہے۔ کتنے ستارے، کتنے سیّارے میرے سر کے گرد چکّر کاٹنے لگے ہیں..... اور..... اور..... اور..... دھڑام! میں زمین پر گر پڑا ہوں؛ اتنا تو مجھے یاد ہے ......

آنکھیں کھلی تو اسپتال کے بستر پر تھا۔

"آپ لیٹے رہیں۔ ڈاکٹر عالیہ نے آپکا خاص خیال رکھنے کو کہا ہے، آپ انکے انکل ہیں نہ۔" یہ سفید لباس میں ملبوس ایک نرس تھی، " میں ابھی ڈاکٹر عالیہ کو بلاتی ہوں۔" اسنے کہا۔

"مجھے کیا ہوا ہے؟" میَں نے پوچھا۔

"کچھ نہیں، بس ذرہ سا اسٹریس اور نارواسنیس؛ شاید ذرا سا یکسایٹمنٹ بھی......" آتے آتے ہی عالیہ اپنی فطرت کے متابِک لگاتار بولے جا رہی تھی، "لگاتا ہے یکسایٹمنٹ کی وجہ سے رات بھر سوے نہیں۔ چلے، اس عمر میں ایسا ہوتا ہے؛ زیادہ اسٹریس لینے سے۔ دھیان رکھیے اب آپ کو زیادہ آرام کی ضرورت ہے....."

.... کیا یہ سچ ہے کہ میری اتنی عمر ہو گیی ہے؟ کیا اتنا وقط گزر گیا ہے؟ مَیں حساب لگانے لگا، ان سارے گزارے لمحات کا، جو دبے پاؤ آکر گزر چکے ہیں میری زندگی سے۔ ابّو امّی کو گزرے ہی ایک طویل عرصہ گزر گیا۔ پتا ہی نہیں چلا....۔ وقت کب گزر جاتا ہے، کس طرح گزر جاتا ہے، پتا ہی نہیں چلتا۔

عالیہ کے جانے کے بعد، باتھروم کے شیشے میں اپنا جایزہ لیا۔ کیا سچ ہے کے میری عمر نظر آنے لگی ہے؟ سچ میں! خجاب سے رنگے بالوں کے نیچے، آنکھوں کی تھکان چگلیاں کرنے لگی ہیں۔ چہرے کی سلوٹیں پکار-پکار کر که رہی ہیں- جنید میاں!! اب تم جوان نہیں رہے۔ کیا کہا تھا علیم صاحب نے؟ وقت پر شادی ہو جاتی تو..... عالیہ کے برابر میری بیٹی ہوتی۔ کیا ٹھیک نہیں کہا؟ تم کسے دھوکا دے رہے ہو جنید؟ زمانے کو؟ نہیں، خود کو۔ خضاب سے کالے کئے ہوے بالوں کے نیچے خوب پالش اور مالش کیا ہوا اپنا ہی چھرا، پہلی مرطبہ مجھے کسی لمپٹ کا چھرا لگنے لگا۔ اسے دیکھنے کی تاب نہیں مجھ میں۔ میں نے گھبراکر آنکھیں موند لی۔ آنکھیں موندتے ہی ابّو جی کا چھرا سامنے آ گیا۔ سفید بالو والا وہ چھرا۔

یاد ہے، جب میں نے ابّو سے کہا تھا، "بال ڈائی کیوں نہیں کرواتے؟ اچّھا لگاتا ہے کیا، بال سفید ہونے لگے ہیں۔"بیٹے،" جواب میں ابّو نے مجھ سے ہی سوال کیا، "بتاؤ، دنیا میں سب سے پہلے کس کے بال سفید ہویے تھے؟"

"ارے! میں کیا بات کر رہا ہوں، اور آپ کیا بات کرنے لگے؟" مئئں نے چڑھکر کہا تھا۔

"میں تمہاری بات کا ہی جواب دے رہا ہوں۔ تم پہلے اس بات کا جواب تو دو۔" وے بولے۔

"مجھے کیا معلوم؟"

"تو سنو۔ اس دنیاں میں سب سے پہلے بال سفید ہوے تھے، حضرت ابراہیم عالیہیسسلام کے۔ ان سے پہلے کسی بھی عمر میں کسی کے بھی بال سفید نہیں ہویے تھے۔ اور اس لئے ہی حضرت ابراہیم عالیہیسسلام نے اللہ سے پوچھا- یا اللہ، یہ کیا ہے؟ تب اللہ نے جواب دیا- یہ ہمنے تمہیں بزرگی اتا کی ہے۔ یعنی سینیارٹی دی ہے۔ اور بھی سنو بیٹا، اللہ تالہ پھرماتا ہے کہ جسکے بال سفید ہو گئے اسکی دعا ردد کرنے سے مجھے شرم آتی ہے۔ تو بیٹا بالو میں یہ چاندی مجھے یوں ہی حاصل نہیں ہو گئی۔ کتنے سال خرچ کئے ہیں میں نے اس دنیا میں، صرف جینا سیکھنے کے لئے۔ بالو کی یہ چاندی میری بزرگی اور تجربات کی علامت ہے۔ میرے لئے اجاز کی اور فخر کی بات ہے یہ سفیدی ۔میں اسے کیوں چھپاؤں۔"

اس دن تو مجھے سمجھ نہیں آیا تھا ان کا یہ لیکچر۔ لیکن آج، اتنے برسو بعد آئینے میں اپنا عکس دیکھکر یہ بات سمجھ سکا ہوں۔

علیم صاحب جمع پڑھکر آ گئے تھے۔

"آپ رتّی بھر بھی فکر نہ کریں جنید صاحب! ہم لوگ ہیں نہ آپکی دیکھ بھال کے لئے۔ پھر عالیہ بھی تو آپکی بیٹی جیسی ہی ہے...."

علیم صاحب لگاتار بولے جا رہے ہیں؛ بلکل اپنی بیٹی کی طرح نون اسٹوپ..... میں تھکن محسوس کر رہا ہوں۔ بیزاراگی محسوس کر رہا ہوں۔ میں یہاں سے بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ یہاں سے، اور اپنے آپ سے بھی۔ میں کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ کہیں چھپ جانا چاہتا ہوں۔ کہیں، جہاں سے خود میں بھی اپنے آپ کو ڈھونڈ نہ سکوں۔

اسپتال سے رہا ہوتے ہی میں سیدھا اس پارلر میں گیا، جہاں سے میں بال ڈائی کرواتا ہوں۔

"میرے بالوں کی ڈائی ریمو کر دو، مجھے اس سے الرجی ہو گئی ہے۔" میں نے کہا۔ کافی نا نوکر اور ہیلے بہانے کے بعد، کچھ لوشن وگیرہ کے سہارے انہونے کچھ حد تک اسے ریمو کر دیا۔ اب میرے کھچڑی بالوں کے نیچے سے ایک سنجیدہ ، سمجھدار اور میچیور شخص کا چھرا جھانکنے لگا ہے۔ اب دنیا مجھے کچھ نئی-نئی سی لگانے لگی ہے۔

گھر پہنچا تو ابّو کو برآمدے میں آرام کرسی پر بیٹھے پایا۔ وے ڈبڈبائ آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے ہیں۔ زندگی میں پہلی مرتبہ انھیں دیکھ میرا دل بھر آیا۔ انکے سامنے میں اپنے گھٹنو پر گر گیا۔ اپنا سر انکی زانو پر رکھ کر رونے لگا۔ لیکن میرا سر آرام کرسی کی لکڑی کی بٹ سے جا ٹکرایا۔ وہاں ابُّو جی نہیں تھے۔ وے اپنی آرام کرسی میرے لئے خالی کرکے جا چکے تھے۔ زندگی میں پہلی بار میں نے ابّو کی کمی، شدّت کے ساتھ محسوس کی۔ پہلی بار میں اس آرام کرسی پر بیٹھا۔ بیٹھا کیا دھنس ہی گیا۔ مجھے بڑا سکوں ملا۔ میں نے آنکھیں بند کر لی۔ یوں محسوس ہونے لگا، جیسے میں ایک چھوٹا بچّہ ہوں، جو اپنے ابّو کی گود میں بیٹھا ہے۔ میری پیشانی پر ان کا ہاتھ ہے۔ ابّو تھپکیاں دیکر مجھے سلا رہے ہیں۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔ میری آنکھیں بند ہیں۔ اشکبار ہیں۔ میرے رخسار آسوں سے بھیگے ہیں.... اور آنسو ہے کے تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔