احساس
افسانہ- مرزا حفیظ بیگ.
میں جیسےہی اس خالی سیٹ پر دھڑام سے بیٹھی، اسکے داہنے کندھے سے ٹکرا گئی. اسکے داہنے کندھے کا لمس میری رگ و جان مے برقی رو بن کر دوڑ گیا.
"sorry…"
اسکی دھیمی لیکن صاف ، پراسر آواز میرے کانو مے گونج اٹھی. کیا گہرائی تھی اسکے آواز مے؟ اتنی دھیمی آواز بھی اتنی صاف اور اتنی گونج لئے ہے؟ آج-کل تو لوگ اپنے تلفّظ پر دھیان ہی کہاں دیتے ہیں. بس، جیسے چاہا بول دیا اور سننے والے نے جیسے چاہا اندازہ کر لیا. انہ! اتنی فکر کرتا ہی کون ہے؟ فن ے سخن کا تو اب اللہ ہی ملک سمجھو. کمیونیکیشن کا سکیل تو بڑا ویک ہو چلا ہے، ان دنو. فر یہ کس دونیا کا باشندہ ہے؟ کوئی ایکٹر وکٹر تو نہی؟
لیکن 'سوری' اسنے کیوں کھا؟ غلطی تو میری تھی. می ہی یوں حڑبڑی مے سیٹ پر دھڑام سے جا بیٹھی تھی. مجھے فکر تھی کے بس مے جگہ ہے یا نہیں. مجھے ڈر تھا کہ مجھسے پہلے کوئ سیٹ پر نہ بیٹھ جائے.اور مجھے کھڈے-کھڈے صفر نہ کرنا پڑے. لیکن جب می سیٹ پر اچچھی طرح دھس گی اور دوبارہ فر اسکی مضبوط فولادی اور کندھے مجھے چھو گئے، اور اسنے فر سے سوری کہ کر اپنے آپ کو کسی طرح کھڑکی کی طرف سمیٹ لیا اور ترچھا ہوکر بیٹھ گیا، تاکہ مجھے فر اڑچن نہ ہو. طب میرا دھیان اس حقیقت پر کہ اصل مے اسکے کندھے اتنے چوڑے تھے کہ اسکی سیٹ کی حد مے نہیں سما رہے تھے اور انچاہے ہی میرے ساتھ گستاخی کر بیٹھے. ویسے گستاخی تو انجانے مے وہ اب بھی کر رہا تھا.... یعنی کہ اسکے چوڑے کندھے اور مضبوط باہوں کے لمس کا احساس جیسے میری بائیں بانہ سے چپک ہی گیا تھا. کیسی حیرانکن بات ہے کہ وہ احساس مجھپر اب بھی یوں طاری ہے، جیسے اب بھی اسکے کندھے اور بازو میرے بین بازو سے لگے ہے ہیں.
'لگاتا ہے پہاڑی ہے'، مہینے دل مے کہا. اسکا رنگ صاف اور درخشاں تھا. بال بھرپور، ملایم اور چمکدار تھے. عمر یہی کوئی تیس کے آس-پاس. دھوپ کا کالا چشمہ لگاے وہ لگاتار کھڑکی سے بہار کی جانب دیکھ رہا تھا. مہینے بس مے چڑھنے سے قبل بہار سے اسے دیکھا تو وہ بلکل فلمی ھیرو جیسا لگاتا تھا. یہ میری خوشبختی ہے کہ مجھے اسکے ٹھیک بازو مے جگہ ملی.
ہلکی سی بارش کے بعد کھلی-کھلی دھوپ سے،جہاں روشن تھا. پہاڑو کے موسم کا کیا بھروسا... فر بھی مجھے نہیں لگاتا کہ اتنی دھوپ ہے کہ گوگلس لگانا پڑے. خیر! اپنا اپنا شوق ہے. ہو سکتا ہے کوئی یکٹر ویکٹر ہو.انہ! مجھے کیا؟موسم خشگوار تھا. ہاں! دھوپ تھی لیکن ویسی نہی جیسی ہم میدانی علاقوں مے دکھاتے ہیں. یہاں تو دھوپ ایک نور کی شاقل مے موجود تھی،جسنے بارش سے دھلے ہے اس پہاڑی کسبے کو اپنی کرنو سے سجا سنوار کر اسکی خوبصورتی کو دوبالہ کر دیا تھا. سچ مے چھٹیوں کا مزا دوگنا ہو گیا تھا.
بس چل پڑی. بس کسبے کی حدوں سے دور نکل کر کھیتوں اور چراگاہوں درمیان سے ناگن جیسی لہراتی بلخاتی ہویی دوڑ رہی تھی. بیچ بیچ مے چھوٹے چھوٹے گاؤ، یکایک نظر آتے اور اسی طرح یکایک پیچھے چھٹ جاتے. می حیران سسی ان منظر کا نظارہ کر رہی ہوں جیسے مہینے آج سے پہلے دنیا ہی نہیں دیکھی. سن لو! ان مناظر سے بڑھکر میرے لئے اس دنیا میں کچھ نہیں ہے. وہ بھی مسلسل بہار کی ججانب منہ کیے انہی نظاروں کا لطف لےرہا ہے. اسکے چہرے کا پاؤ حصّہ ہی مجھے نظر آتا ہے؛ لیکن ان نظروں کی تازگی، ان ہواؤں کی نرم و نازک سرسراہٹ کا لطف اسکے چہرے پر صاف نمایا ہے.
لیکن ایک بات مجھے ہرٹ کر رہی تھی، اتنے وقفے مے اسنے ایک مرتبہ بھی میری طرف نہیں دیکھا. کنکھیوں سے بھی نہیں.کیا ایسی بری ہوں می؟ خوبصورت ہے طو تو ہوں میں بھی حسین.... اور کوئی ایسی ویسی حسین؟ ایسویسی کی حسیناہیں تو میرے سامنے پانی بھریں. تھک ہے دکھاتے ہیں یہ برخی کب تک قایم رہتی ہے؟
ہوا کی ہلکی ہلکی لہریں میرے چہرے کو سہالاکر گزرنے لگی تو مہینے اپنے لمبے بالوں مے لگی پن نکل دی. میری زلفیں آزاد تھین. وے ہواؤں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگیں. ہوا ان زلفوں کو اڑاتی اور بکھر دیتی. میں انھ اپنے ہاتھو سے سمٹتی اور فر ہوا کے حوالے کر دیتی.
مجھے ہوا اور زلفوں کے اس کھل میں مزہ آرہا تھا. میں اس کھل کا لطف اٹھانے لگی. بیچ-بیچ میں ترچھی نظروں سے اسے دیکھ لیتی. وہ اب بھی ویسا ہی تھا.... بھیس!! کھڑکی سے باہر کو رخ کئے ہویے. ایک بوط کی مانند. میرے لہراتے لمبے بالو کی کچھ لٹن بیساختہ، اسکے بازو، کندھے گردن اور چہرے پر بکھر جاتی، اور فر سمٹ آتی. میں جانبوجھکر اس بات سے انجان بنے رہنے کی کوشش کر رہی تھی. اصل میں تو اپنے بالوں کا اسے یوں چھیڑنا مجھے اچچھا لگ رہا تھا. یہ کھل مجھے اندر تک گدگدا رہا تھا. مجھمے رومانیت بھر رہا تھا. اسے بھی تو کچھ محسوس ہوتا ہوگا. لیکن وہ تو اب بھی ویسا ہی تھا بت بنا ہوا. کیسا بھیس ہے اسمے تو احساس نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے. کوئی جذبات بھی نہیں.
"اپنے بال بندہ لیں، مجھے پریشانی ہو رہی ہے."
پریشانی؟ ہونہ، مائی فٹ!!
لیکن، نہیں....،
چلو در سے ہی سہی، مشقل سے ہی سہی، اسکی زبان سے کچھ فاٹا تو.
"وہ! آی یم سوری.... آی سٹریملی سوری." کہتے ہے مہینے اپنے بال سمٹ کر دوپٹے سے دھاک لئے.
کچھ تو تھا...، کچھ تو تھا اس آواز میں.... ایک طلسم سا. ایک اندیکھی، انجانی سی کشش؛ جسنے میرے ہوشوحواس پر قابو کر لیا اور می فورن اسکی بات مان گئی.
بس اب بھی اسی رفتار سے چلی جا رہی تھی. مست ہوا کے ہلکے ہلکے جھکے اب بھی چہرے کو سہالاکر گزر رہے تھے. پتا نہی کسی گندگی مجھپر تاری ہونے لگی. می کہیں کھونے لگی. حد ے نگاہ ، سبز بہار، درمیان مے کہیں کہیں گلزار ، ایکاہدہ دخت. پربتوں پر ڈولتے سفید بادل.... وہ کوئی گیت گنگناتا چلا جا رہا ہے. اسکی آواز پرندو کو صدا دیتی،گھنٹیوں کی طرح وادیوں مے گونج رہی ہے. اسکی پر کشش آواز جیسے ہوا بنکر لہلہاتی حری گھاس اور گلزار درختوں کو سہلاکر گزر رہی ہے. وہ دور... دور... اور دور... وادیوں مے چلا جاتا ہے. اسکا گیت صدا بنکر مجھ تک پہنچ رہا ہے. وہ کیا گاتا ہے؟ کیا پتا؟ مجھ تک تو بس ایک صدا آ رہی ہے. ایک آواز! اور اس آواز کے طلسم مے بندھی میں،اسکے پیچھے پیچھے چلی جا رہی ہوں. کہاں جا رہی ہوں؟ کیا پتا. وہ کہاں جا رہا ہے کیا پتا. ہاں! پتا ہے تو اتناکہ، کتنے ہی ہارے بھرے گھانس کے میدان، کتنے پربات، کتنے دریا میرے کدامو کے نیچے سے گزر رہے ہیں....، گزر رہے ہیں.... اور دفعتاً ایک ٹھوکر.... آه! مجھے سمھالو می گری...، میں گری...،
وفف!!!
نہیں، نہیں! سب ٹھیک ہے. وہ بس نے ایک تیکھا موڑ لیا تھا، جسسے مجھے جھٹکا لگا.
... دل...، آخر دل بھی اپنا نہیں رہا. فر اس طرف کھچا جاتا ہے. یہ آخر ہے کون؟ کیا کوئی یکٹر ہے؟ یا کوئی لوفر؟ کیوں ن اسکے بارے مے اسسے ہی اگلوایا جائے. ارے ہاں! یہ مجھے پہلے سجھا کیوں نہیں؟ اسکی پرسنالٹی، اسکا مینارزم تو بلکل یکتارو جیسا ہے. ضرور یہ یکٹر ہی ہے. کیا مہینے اسے کبھی دیکھا ہے؟ کسی ٹی وی سیریل میں؟ یا کسی فلم مے؟ کچھ جانا پہچانا سا تو ضرور ہے؛ کچھ یاد کیوں نہی آتا؟
"ایکسکیوز می، کیا آپ یہیں کے رہنے والے ہیں؟" مہینے بات کا سلسلہ چلانے کی کوشش کی. میری امید کے برعکس وہ خاموش رہا. دار حقیقت اسنے تو کوئی ریکشن ہی نہیں دیا. سچ مے بڑا ایٹیتیُوٹ دیکھا رہا ہے. مہینے اب اسے ہاتھ سے توہکا مارتے ہے کہا، "ایکسکیوز می..."
وہ جیسے نیند سے جاگا.
"جی، آپ نے مجھسے کچھ کہا؟" اسنے میری طرف دیکھ بگیر ہی کہا. ذرا دیکھیں تو اسکا ایٹیتیُوٹ، کیا میں کھڑکی سے بات کر رہی ہوں؟ "جی،" مہینے کھا، "مہینے پوچھا آپ یہیں کے رہنے والے ہیں کیا؟"
"کیوں؟"
میں ہڑبڑا گئی. سوال کے جواب مے سوال کی امید نہی تھی، مجھے.
"ا..." زبان کو تو جیسے لکوا مار گیا.
"میرا مطلب ہے، آپ کیوں جاننا چاہتی ہیں؟" واہ! ذرا دیکھو تو معصومیت، جناب کی. جیسے کچھ سمجھ ہی نہیں آتا ہو؟
"بس، ویسے ہی...، میرا مطلب آپ ٹورسٹ تو نہیں.... دراصل می ٹورسٹ ہوں ن، اسلئے پوچھ رہی تھی." می نے لڑکھڑاتی سی زبان مے جواب دیا.
"نہیں، می لوکل ہوں." اسنے سپاٹ لہازے مے کہا؛ جیسے پوچھنا چاہتا ہو، "تو، کیا کرنا ہے؟"
"آپ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں، جو اس جگہ پر رہتے ہیں."
"کیوں؟ اسی کیا خوش قسمتی ہے، اس جگہ رہنے مے؟ یہاں بدقسمت لوگ بھی رہتے ہیں."
"یہ جگہ اتنی خوبصورت جو ہے."
وو چپ رہا.
"کیوں؟ آپ کو ایسا نہیں لگتا؟"
"پتا نہی،" اسنے جیسے ایک بیکار کی بات کا جواب دیا ہو، "لوگ کہتے تو ہیں."
لوگ کہتے ہیں.... یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ پتا نہی یہ کیا کہنا چاہتا ہے؛ کیا اسکی اپنی کوئی راۓ نہی ہے؟ لوگ کہتے ہیں.....
خاموشی لمبی ہو رہی تھی، اور میرا سوال اپنی جگہ قایم تھا. خاموشی توڑتے ہویے مہینے سیدھا سوال ڈاگا- "آپ کام کیا کرتے ہیں؟"
"پڑھاتا ہوں."
پڑھاتا ہے؟ اچچھا، ٹیچر ہے. کسی سکول مے پڑھاتا ہوگا، یا شاید ٹیوشن ٹیچر ہو.
"کیا پڑھاتے ہیں؟"
"تاریخ."
اتنا بورنگ سبجیکٹ؟ تبھی اتنا برخ ہے. کیا پتا، خود کو کوئی بادشاہ یا شہنشاہ سمجھتا ہو.
"تاریخ؟؟؟" مہینے کچھ اس انداز مے پوچھا جیسے کہنا چاہتی ہوں، 'یہ بھی کوئی سبجیکٹ ہے؟'
"جی،" اسنے سادگی سے جواب دیا. فر تھوڑا روک کر کہا، "گورنمنٹ کالج مے پروفیسر ہوں."
پروفیسر؟ تاریخ؟؟ پتا نہیں لوگ آج کل ہوتے کو اور دیکھتے کچھ ہیں.
بس اپنی رفتار سے چلی جا رہی ہے. کیا اسے کچھ بھی واسطہ ہے میرے اندر کے طوفان سے....؟
اگلے سٹاپ سے، بس مے ایک اندھا فقیر چڑھا. اسکے ساتھ دس بارہ برس کی ایک لڑکی تھی؛ جسکا کندھا پکڑے وو چلتا، اور گانا گاتا تھا، "آدمی مسافر ہے؛ آتا ہے جاتا ہے، آتے جاتے راستے میں یادیں چھوڑ جاتا ہے."
کچھ تو انکا حال ہی ایسا تھا؛ اور کچھ تو آواز مے درد ایسا تھا کہ ہر کوئی انھ کچھ ن کچھ دے رہا تھا. وو سنگدل انسان! تاریخ کا وو پروفیسر، اب بھی منہ فیر یوں بیٹھا تھا، جیسے اپنے آس پاس کی حرکتوں سے اسے کوئی واسطہ ہی نہیں. ن جیب سے فوٹی کوری نکالی، ن منہ سے دو بول. ہمدردی کی ایک نظر تک نہیں. ہونہ! لعنت ہے مجھپر جو می اس پتتہردل انسان کے لئے کیا کیا خیال بننے لگی تھی.
اندھا فقیر تو چلا گیا، لیکن می نے اس سنگدل انسان کو سبک سکھانے کی ٹھان لی.
"ہمے لاچار مجبوروں کی مدد کرنی چاہئے. آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہے." مہینے اسے کوہنی سے ٹوہکا مرتے ہے کہا، تاکہ وہ یہ ن کہ سکے کے، "جی، آپ نے کچھ کہا؟"
"ہاں، اچچھی بات ہے." اس بےرخ انسان نے اسی طرح باہر دکھاتے ہے کہا.
"آپکو رحم نہی ہے؟" می اسے کب چھوڑنے والی تھی.
"کس لئے؟" اسنے حیرانی دکھاتے ہویے پوچھا.
"وہ اندھا تھا بیچارا."
"آپکو اندھو پر رحم آتا ہے؟" اسنے بڑی بےشرمی سے سوال کے جواب مے سوال ڈاگ دیا.
"بلکل،" مہینے کہا، "ہم ان پر ترس نہیں خاینگے، تو یہ بیچارے جینگے کیسے؟ کبھی سوچا ہے اس بارے مے؟"
"نہیں، می اس بارے مے نہیں سوچتا." اسنے اسی بےرخی سے جواب دیا.
"ہمی انسانیت کے ناتے تو سوچنا چاہئے."
"کیوں سوچنا چاہئے؟ کوئی خودداری سے جینا چاہتا ہے، کوئی لوگو کے رحم پر جینا چاہتا ہے. سبکی اپنی مرضی ہے."
"سو ڈسگسٹنگ..." می بربری.
اسمے تو انسانیت بھی نہیں ہے.
وہ اسی طرح منہ مے دہی جمعے بیٹھا رہا. اپنے سارے جسم کو کھڑکی سے بہار کی طرف سمیٹے، باہر کو رخ کئے. بس خراما خراما وادی کو پار کر رہی تھی. اس طرف تو سیدھی کھڑی چٹانی فصیلوں کے سوا کچھ نہی. وہ تو بس بہار دکھانے کا ناٹک کر رہا ہے. اسکے برعکس دوسری طرف وادی مے گلوں کی کاصنی چادر بچھی ہے، جس پر سورج اور بادل ملکر دھوپ-چھانو کا کھل کھل رہے ہیں.
ظاہر ہے وہ مجھے نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہا ہے. لیکن می بھی کچھ کم تو نہیں. می اتنی آسانی سے اسے بخشنے والی نہیں.
"آپ کو ان پر ترس نہیں آتا؟"
"نہیں، مجھے انپر ترس نہی آتا"
وفف! ذرا دیکھیں تو اسے، اسے تو شرم بھی نہیں آتی.
....
ترس تو آپکو بھی نہیں آتا. آپ تو صرف اپنی انا کی خاطر یہ کرتی ہے. آپکو کوئی حق نہیں انکی خودداری کو روندنے کا. وے خیرات پر جیتے ہیں، کیونکہ آپ انھے خرات دیتے ہیں. ورنہ وے آپ سے کمتر نہیں. اگر آپ انکی مدد کرنا چاھتی ہیں تو انکے ساتھ برابری کا سلوک کریں. ان پر عتبار کریں؛ یہ بھی آپ کی ترہ کچھ ن کچھ کرکے خودداری سے زندگی جی سکتے ہیں. وے لاچار نہیں، صرف خدتماد کی ضرورت ہے انھیں..."
وہ ایک رو مے بولتا چلا جارہا تھا؛ جانے کیا کیا. اور می حیران سی سنتی رہی جانے کیا کیا. اسکے لہزے مے میرے لئے ناپسندگی صاف-صاف جھلک رہی تھی. میں حیران! مہینے ایسا کیا کہ دیا؟ میں تو اپنی جگہ بلکل درست تھی. ہونہ! ایسے برہم سنگدل لوگوں سے بات کیا کرنا؛ یہ تو خود کو سہی صابط کرنے کے لئے کچھ بھی کہیںگے. کھانا بڑا آسان ہوتا ہے؛ جب خود پر گزرتی ہے ٹیب سمجھ آتا ہے. یہ تو بس، جم جاکر مسلس بنانا، اچچھے اچچھے کپڑے اور مہنگے گاگلز لگاکر، ہیرو بن کر رواب جھاڑنا ہی جانتا ہے. خواتین سے گفتگو کی تمیز تک نہیں. اس طرح مہ فرے بیٹھا ہے جیسے میری کوئی آوکات ہی نہیں. کیا می اسسے کمتر ہوں. کیا میں اسکی ایک نظر کی مھتاذ ہوں؟
بہت سی باتیں، ذہن مے اٹھ رہی تھیں. دل مے اسکے لئے نفرت سی ہونے لگی. غلطی میری ہی تھی. میں ہی اسکے مہ لگی تھی. وہی ایک ہنڈسم لڑکا تو نہیں بچا تھا دنیا مے؟ ٹھیک ہے، شاقل سے کسی کی فطرت نہیں سمجھ آتی؛ کسی کی شاقل ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی... چھ...
ایک عجیب سا احساس ہے جو دلو دماگ پر مسلّط ہوتا جاتا ہے. کچھ تو ہے جو اب بھی نہا ہے... چھپا ہوا ہے...
کیا ہے؟ سمجھ نہیں آتا...
"گورنمنٹ کلیج." ایک آواز... یہ بس کنڈکٹر کی آواز ہے.
بس روک گئی. کنڈکٹر نے قریب آکر اسسے بڑے ادب سے کہا، "آپکا کالج آ گیا ہے، سر." فر مجھسے مخاطب ہا، "میڈم ذرا ادھر آجاہیں. سر کو بہار نکلنے دیں."
مجھے سمجھ نہیں آرہا اسے اتنا وی. آی. پی. ٹریٹمنٹ کس لئے؟ یہ کنڈکٹر جیسے چھوٹے-موٹے لوگ ہی ایسے لوگوں کو زیادہ بھاؤ دیتے ہیں. انکی اصلیت سے ناوعاکف ہوتے ہیں نہ! انمے مردمشناسی کی تمیز کہاں؟ اس طرح کڑھتی ہوئی میں نکلکر سٹ کے بازو کھڑی ہو گئی. وہ اٹھا اور اس طرف گھما ٹیب مہینے اس شخص کا بھرپور موعائینہ کیا. دبلا-پتلا، نکلتا ہوا قد؛ لیکن قد کے حساب سے کندھے زیادہ چوڑے اور مضبوط. کشادہ چہرہ اور مضبوط جبڑے، اسکی مضبوط ارادے والی شخصیت کی گواہی دے رہے تھے. اسکے شانے سے ایک بیگ لٹک رہا تھا. اسنے اپنے بیگ مے ہاتھ ڈالکر ایک چھوٹی سی چھڑی نکالی، جو ایک ہلکے سے جھٹکے سے ہی خلکر لمبی ہو گئی.
یا مولا! یہ تو اندھوں والی چھڑی ہے.
وہ چھڑی کو ٹھکٹھکاتا، راستہ ٹٹولتا بنا کسی کی مدد کے آگے بڑھتا بس سے اتر، اپنے کلیج کی طرف چل دیا. اور میں اپنے داہنے ہاتھ سے بایں بازو کو سہلاتی رہ گئی جہاں اسکے لمس کا احساس اب تک موجود تھا.....
----- -----